امریکہ نے شام کی رکنیت بحال کرنے کے عرب لیگ کے فیصلے کی سخت نکتہ چینی کی ہے۔ پیر کے روز اس نے کہا کہ اپنے ملک کو وحشیانہ خانہ جنگی میں دھکیلنے کے بعد صدر بشار الاسد تعلقات معمول پر لانے کے مستحق نہیں ہیں۔ امریکی رہنماوں نے تعلقات کو معمول پر لانے کے عرب لیگ کے فیصلے کو ایک "سنگین اسٹریٹیجک غلطی” قرار دیا۔
عرب لیگ نے اتوار کے روز قاہرہ میں منعقدہ ایک اجلاس میں گیارہ برس بعد شام کی رکنیت بحال کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ امریکی کانگریس کے اہم اراکین نے پارٹی خطوط سے اوپر اٹھ کر بائیڈن انتظامیہ پر زور دیا ہے کہ وہ شام کی اسد حکومت کو تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش سے روکنے کے لیے اس پر پابندی عائد کرنے سمیت دیگر سخت اقدامات کرے۔
امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان ویدانت پٹیل نے نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، "ہم اس بات پر یقین نہیں رکھتے کہ شام کو اس وقت عرب لیگ میں دوبارہ شمولیت کا حق ہے۔” انہوں نے کہا کہ "ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اسد حکومت کے ساتھ اپنے تعلقات کو معمول پر نہیں لائیں گے اور ہم تعلقات کو معمول پر لانے والے اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کی بھی حمایت نہیں کرتے۔”
‘اسد کو عرب لیگ میں دوبارہ شامل کرنا ایک سنگین اسٹریٹیجک غلطی’
عرب لیگ میں شام کی شمولیت کے بعد امریکی کانگریس کے اراکین نے پارٹی خطوط سے بالاتر ہوتے ہوئے بہت سخت لہجہ اختیار کیا ہے۔ انہوں نے امریکہ پر زور دیا کہ وہ اسد کے ساتھ تعلقات کو معمول پر آنے سے روکنے کے لیے پابندیاں عائد کرنے کی طاقت کا استعمال کرے۔
امریکی کانگریس میں خارجہ امور کی کمیٹی کے چیئرمین ریپبلیکن رہنما مائیکل میک کاول اور سینیئر ڈیموکریٹ لیڈر گریگوری میکس کا کہنا تھا، "اسد کو عرب لیگ میں دوبارہ شامل کرنا ایک سنگین اسٹریٹیجک غلطی ہے، جو اسد کو روس اور ایران کو شہریوں کا قتل عام جاری رکھنے اور مشرق وسطی کو غیر مستحکم کرنے کی حوصلہ افزائی کرے گا۔”
انہوں نے کہا، "اسد میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے، وہ ان مظالم کو جاری رکھیں گے اور ایک عالمی نظیر قائم کرنے کی کوشش کریں گے کہ بے رحم آمروں کا ان کے جرائم کے لیے آسانی سے احتساب نہیں ہوتا۔” کانگریس نے امریکہ کو جنگ کے دوران ہونے والی زیادتیوں کی جوابدہی کے بغیر شام کی تعمیر نو کے لیے کسی بھی امداد سے روک دیا ہے۔
خیال رہے کہ امریکہ کی تمام تر کوششوں کے باوجود عرب لیگ نے اتوار کو شام کی رکنیت بحال کرنے کا فیصلہ کیا۔ امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان ویدانت پٹیل کا کہنا تھا کہ امریکہ عرب شراکت داروں کے ساتھ مل کر داعش کے شدت پسند گروپ کے دوبارہ سرا ٹھانے سے روکنے کے لیے استحکام کی حمایت کرے گا۔
اسد کو عرب لیگ سربراہی اجلاس میں مدعو کرنے پر غور
عرب لیگ نے سن 2011ء میں اسد حکومت کے خلاف سڑکوں پر نکلنے والے مظاہرین کے خلاف خونریز کریک ڈاؤن کے بعد شام کی رکنیت معطل کر دی تھی۔ اس احتجاج اور حکومتی رد عمل نے بعد میں ایک طویل اور تباہ کن خانہ جنگی کی شکل اختیار کر لی، جس میں نہ صرف لاکھوں افراد مارے گئے بلکہ بہت بڑی تعداد میں عام شہری بے گھر بھی ہوئے۔ اس دوران کئی عرب ریاستوں نے اپنے سفیروں کو دمشق سے نکال بھی لیا تھا۔
تاہم حال ہی میں سعودی عرب اور مصر سمیت کئی عرب ریاستوں نے شام کے ساتھ اعلیٰ سطحی دوروں اور ملاقاتوں کا سلسلہ دوبارہ شروع کر دیا، اگرچہ قطر سمیت کچھ دیگر خلیجی ممالک شام کے تنازعے کے سیاسی حل کے بغیر اسد حکومت کے ساتھ تعلقات مکمل طور پر معمول پر لانے کے مخالف ہیں۔ عرب ممالک اس بات پر بھی اتفاق رائے کی کوشش کر رہے ہیں کہ آیا شامی صدر اسد کو 19مئی کو سعودی دارالحکومت ریاض میں ہونے والے عرب لیگ کے اگلے سربراہی اجلاس میں مدعو کیا جائے۔