بنگلورو: کرناٹک ہائی کورٹ نے ایک اہم تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہےکہ اگر نوجوانوں اور خاص طور پر اسکول کے بچوں کے لیے سوشل میڈیا پر پابندی لگائی جائے تو یہ ملک کے لیے اچھا ہوگا۔ عدالت نے یہ بھی تجویز کیا کہ جب انہیں ووٹ کا حق ملے تب ہی انہیں سوشل میڈیا استعمال کرنے کا موقع دیا جائے۔ یہ عمر 21 یا 18 سال ہو سکتی ہے۔
ٹائمس آف انڈیا کی رپورٹ کے کرناٹک ہائی کورٹ کی طرف سے یہ تبصرہ اس وقت کیا گیا جب جسٹس جی نریندر اور جسٹس وجئے کمار اے پاٹل کی ڈویژن بنچ ایکس کارپ (سابقہ ٹوئٹر) کی اپیل پر سماعت کر رہی تھی۔ ڈویژن بنچ نے کہا، ’’اسکول جانے والے بچے سوشل میڈیا کے عادی ہو چکے ہیں اور اگر ان پر پابندی لگائی جائے تو یہ ملک کے لیے اچھا ہو گا۔
خبر رساں ایجنسی کی خبرکے مطابق عدالت نے مزید کہاکہ بچے 17 یا 18 سال کے ہو سکتے ہیں لیکن کیا ان میں یہ فیصلہ کرنے کی پختگی ہے کہ کیا ملک کے مفاد میں ہے اور کیا نہیں؟ نہ صرف سوشل میڈیا بلکہ انٹرنیٹ سے بھی ان چیزوں کو ہٹایا جانا چاہئے جو جو دماغ میں زہر بھرتی ہیں۔ حکومت کو سوشل میڈیا کے استعمال کے لیے عمر کی حد مقرر کرنے پر بھی غور کرنا چاہیے۔
کرناٹک ہائی کورٹ کے یہ تبصرے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی طرف سے دائر اپیل کی سماعت کے دوران سامنے آئے ہیں جس میں سنگل جج بنچ کے حکم کو چیلنج کیا گیا ہے، جس نے انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ کی دفعہ 69اے کے تحت الیکٹرانکس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت کے احکامات جاری کیے تھے۔ منظور شدہ حکم پر سوال اٹھانے والی ان کی درخواست کو مسترد کر دیا گیا تھا۔ عدالت نے کمپنی پر 50 لاکھ روپے کا جرمانہ عائد کیا تھا۔ عدالت نے کمپنی سے کہا تھا کہ وہ اپنی صداقت ظاہر کرنے کے لیے جرمانے کی رقم کا 50 فیصد جمع کرے۔ کمپنی نے دلیل دی کہ یہ جرمانہ بہت زیادہ ہے اور غیر منصفانہ بھی۔