پٹنہ: بہار کے سیوان اور چھپرا میں زہریلی شراب پینے کے نتیجے میں 28 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ابتدائی معلومات کے مطابق، سیوان میں 20 افراد کی، جبکہ چھپرا میں 8 افراد کی موت ہوئی ہے۔ یہ واقعہ بہار میں شراب بندی کے سخت قوانین کے باوجود پیش آیا ہے، جو 2016 میں نافذ کیا گیا تھا۔
مرنے والوں میں سے اکثر کا تعلق چھوٹے گاؤں اور محلے سے ہے، جہاں لوگ زیادہ تر اجتماعی طور پر شراب پینے کی عادت رکھتے ہیں۔ حالیہ ہلاکتوں کے بعد مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ شراب ممکنہ طور پر غیر قانونی طور پر تیار کی گئی تھی، جو زہریلی تھی۔ متاثرہ افراد کو فوری طور پر نزدیکی اسپتالوں میں منتقل کیا گیا، جہاں کچھ کی حالت نازک بتائی جا رہی ہے۔
زہریلی شراب سے موت کی خبر کے درمیان ریاستی حکومت کے وزیر رتنیش سادا کا عجیب بیان سامنے آیا ہے۔ اتنی اموات کے بعد بھی وزیر یہ نہیں مان رہے کہ یہ انتظامی ناکامی کا معاملہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کوئی انتظامی ناکامی نہیں ہے، سوال یہ ہے کہ اتنے لوگوں کی موت کے بعد کیا یہ انتظامی ناکامی نہیں؟
بہار میں زہریلی شراب پینے کے واقعات کوئی نئی بات نہیں۔ پچھلے سال بھی، ریاست کے مختلف علاقوں میں زہریلی شراب کے استعمال سے کئی افراد کی ہلاکتیں ہو چکی ہیں، جس کی وجہ سے حکومت کی کارکردگی پر سوالات اٹھتے رہے ہیں۔ عوامی عدم اطمینان کے سبب اپوزیشن جماعتیں حکومت کو نشانہ بنا رہی ہیں اور کہہ رہی ہیں کہ حکومت اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے سے قاصر ہے۔
بہار میں زہریلی شراب کے استعمال کے واقعات کو روکنے کے لیے مختلف حکومتی اقدامات کیے گئے ہیں، مگر غیر قانونی شراب کی دستیابی اب بھی ایک بڑا مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ شراب مافیا کے خلاف سخت کارروائی کرے گی اور ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی، تاہم عملی طور پر ان وعدوں کی تکمیل میں مشکلات کا سامنا ہے۔