وفاقی دفتر شماریات کے مطابق گزشتہ برس جرمنی میں کل 168,500 افراد کو شہریت دی گئی۔ یہ گزشتہ بیس سالوں کی سب سے زیادہ تعداد ہے اور اگر تناسب میں دیکھا جائے تو یہ 2022ء کے مقابلے میں 28 فیصد کا اضافہ بنتا ہے۔ جرمنی کی 16 میں سے ایک ریاست کے اعداد و شمار فی الحال دستیاب نہیں ہو سکے۔
اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ شام سے تعلق رکھنے والے 48,300 افراد کو شہریت دی گئی ہے جو کہ 2022ء کے مقابلے میں تقریباﹰ 29 فیصد زیادہ ہے۔ شامی پس منظر رکھنے والے ان افراد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہیں جرمنی کی شہریت کے حصول کے لیے تقریباﹰ ساڑھے چھ سال انتظار کرنا پڑا اور ان کی اوسط عمر 24.8 سال بنتی ہے۔ ان میں بڑی تعداد مردوں کی ہے۔
ان میں سے زیادہ تر وہ شامی شہری ہیں، جو ہجرت کر کے جرمنی پہنچے تھے۔ انہوں نے جرمن زبان سیکھنے کے حوالے سے شرائط کو پورا کیا، اپنے لیے روزگار تلاش کیا اور اس دوران رہائش کے اپنے مسائل کو تیزی سے حل کیا۔ شام کے بعد جرمن شہریت حاصل کرنے والوں میں دوسران نمبر ترک شہریوں کا ہے۔ ترک پس منظر رکھنے والے 14,200 افراد نے جرمن شہریت دیے جانے کی پیشکش قبول کی۔
اس کے بعد عراق سے تعلق رکھنے والے ہیں، جن کی تعداد 6,800 بنتی ہے۔ اس فہرست میں اگلا ملک اس وقت جنگ کا شکار یوکرین ہے، جس کے 5,800 شہریوں کو جرمن شہریت دی گئی۔ جرمن حکومت نے گزشتہ بر نومبر میں جرمن شہریت حاصل کرنے کے قوانین کو آسان بنانے کے لیے اصلاحات کا فیصلہ کیا تھا۔
اس سلسلے میں طے پانے والے معاہدے کے مطابق شہریت کے حصول کی تمام تر شرائط پورا کرنے والوں کو پانچ سال یا”انضمام کی غیر معمولی کامیابیوں‘‘ کے ساتھ تین سال میں بھی جرمن شہریت دی جائے گی۔
اس کے علاوہ جرمنی میں پیدا ہونے والے بچے جن کے والدین میں سے کوئی ایک بھی پانچ سال سے جرمنی میں قانونی طور پر مقیم ہو، انہیں بھی جرمن شہریت دے دی جائے گی۔ برلن حکومت دُوہری شہریت پر لگی پابندیاں بھی ہٹانے کا ارادہ رکھتی ہے۔اصولی طور پر جرمنی میں دوہری شہریت رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ اب تک یورپی یونین کے رکن ممالک اور سوئٹزرلینڈ کے علاوہ دنیا کے کسی دوسرے ملک کے شہریوں کو جرمن شہریت لینے کے لیے اپنی سابقہ شہریت ختم کرنا پڑتی ہے تاہم اس قانون میں کچھ چھوٹ بھی رکھی گئی تھی۔ 2022ء میں 171 ممالک سے تعلق رکھنے افراد کو جرمن شہریت دی گئی۔