یروشلم :اسرائیلی حکومت کے ذریعے منظور نئے قانون کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اس نئے قانون کےتوسط سے اسرائیل کی عدلیہ کا اختیار چھیننے کی کوشش کی گئی ہے۔ دراصل، وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے متنازعہ عدالتی اصلاحات کے منصوبوں کا ایک حصہ منظور کر لیا ہے۔ اس سے سپریم کورٹ کی اسرائیلی پارلیمنٹ کے فیصلوں کو کالعدم کرنے کی صلاحیت محدود ہو گئی ہے۔ بتاتے چلیں کہ یہ شق 64 کے مقابلے میں صفر ووٹ سے منظور کی گئی تھی، کیونکہ اپوزیشن کے اراکین اسمبلی ایوان سے واک آؤٹ کر گئے اور ووٹ نہیں دیا۔ واضح رہے کہ مجوزہ تبدیلیوں کے خلاف اسرائیل میں بڑے پیمانے پر مظاہروں کے دوران حکومت نے متنازع قانون کو پاس کرا لیا۔
نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ معقولیت ایک قانونی معیار ہے جسے آسٹریلیا، برطانیہ اور کینیڈا سمیت متعدد ممالک دائرہ اختیار استعمال کرتے ہیں۔ اگر کوئی عدالت کہے کہ جو فیصلہ لیا گیا ہے وہ متعلقہ وجوہات پر غور کیے بغیر یا ہر متعلقہ وجہ کو اہمیت دیے بغیر یا غیر متعلقہ وجوہات کو بہت زیادہ اہمیت دے کر لیا گیا ہے تو عدالت اس فیصلے کو غیر منصفانہ قرار دے سکتی ہے۔ نیتن یاہو کی حکومت نے دلیل دی ہے کہ اس تبدیلی سے ملک میں جمہوریت کو فروغ دینے میں مدد ملے گی۔ یہ منتخب قانون سازوں کو غیر منتخب ججوں سے زیادہ طاقت دیتا ہے۔
مخالفین اس متنازعہ قانون کو اس نقطہ نظر سے دیکھ رہے ہیں کہ قانون میں کی جانے والی تبدیلیوں سے انتہائی دائیں بازو کی حکومت کو عدلیہ
کی مداخلت کے بغیر قدامت پسند اور عدم برداشت کی پالیسیوں پر عمل درآمد میں مدد ملے گی۔ اب تک حکمران اتحاد نے صرف وہی قانون نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو معقولیت کے قانونی تصور سے جڑا ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ہی مارچ 2023 میں بڑے پیمانے پر ہونے والے مظاہروں کی وجہ سے دیگر اصلاحات کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔ جنوری 2023 میں پہلی بار حکومت نے عدالتی نظام کو تبدیل کرنے کے منصوبے کا باضابطہ اعلان کیا۔