شملہ: سنجولی علاقہ کی مسجد کے غیرقانونی حصہ کو ڈھادینے کے مطالبہ پر گزشتہ ہفتہ شملہ میں احتجاج کے دوران برپاتشدد کے سلسلہ میں 50 افراد کے خلاف کیس درج ہوا ہے، جن میں وی ایچ پی قائدین، سابق کونسلرس اور سرپنچ شامل ہیں۔
11 ستمبر کو احتجاجی، سیکوریٹی عملہ سے ٹکرا گئے تھے۔ انہوں نے بیریگیڈس توڑ دی تھیں اور پولیس پر سنگباری کی تھی۔ پولیس نے بھیڑ کو منتشر کرنے آبی توپوں کا استعمال اور لاٹھی چارج کیا تھا۔ تقریباً 10 افراد بشمول پولیس والے اور عورتیں زخمی ہوئے تھے۔
سپرنٹنڈنٹ پولیس شملہ سنجیوکمار گاندھی نے پی ٹی آئی کو بتایا کہ احتجاج کے لئے اکسانے والوں کا سی ڈی آر (کال ڈاٹا ریکارڈ) کھنگالا جارہا ہے۔ مزید کیسس درج کئے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج، ویڈیو اور فوٹو گراف ثبوت موجود ہے کہ لوگوں کے ہاتھوں میں پتھر تھے، جو انہوں نے ڈیوٹی پر موجود عہدیداروں پر پھینکے۔
پولیس نے جن 50 افراد کی نشاندہی کی اور 8کیسس درج کئے، ان میں وشواہندوپریشد کے قائدین، گرام پردھان اور ان کے نائبین، سابق کونسلرس اور دوکاندار شامل ہیں۔ سپرنٹنڈنٹ پولیس نے کہا کہ یہ منصوبہ بند احتجاج تھا۔ سوشیل میڈیا پر جنہوں نے لوگوں کو بھڑکایا ان کی نشاندہی ہوچکی ہے۔
ایک ویڈیو میں ٹمپو پر کھڑے ایک شخص کو لوگوں کو امتناعی احکامات کی خلاف ورزی کے لئے اکساتے دیکھا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ احتجاج کی اجازت لینے ہمیں کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی۔ پولیس عہدیداروں نے کہا کہ دو پولیس والے شدید زخمی ہوئے۔
خاطیوں کے خلاف ازروئے قانون سخت کارروائی ہوگی۔ سنجولی مسجد مسئلہ پر شملہ میں کشیدگی کے دوران ایک مسلم ویلفیر کمیٹی نے گزشتہ جمعرات کو کہا تھا کہ وہ غیرمجاز حصہ منہدم کردے گی، جبکہ مسلمانوں نے منڈی میں مسجد کی ایک دیوار خود ڈھادی تھی جو سرکاری زمین پر بنی تھی۔ ویلفیر کمیٹی کے وفد نے شملہ میونسپل کمشنر سے نمائندگی کی کہ محلہ میں رہنے والے مسلمان ہماچل پردیش کے مستقل رہائشی ہیں۔