لندن: چین بغیر نقدی کے لین دین کے معاملے میں دنیا کا سرفہرست ملک بننے کی راہ پر گامزن ہے۔ یہ معلومات برطانیہ کی کارڈف یونیورسٹی میں بینکنگ اینڈ فنانس کے پروفیسر کینٹ میتھیوز کے حالیہ خصوصی انٹرویو کے حوالے سے دی گئی ہیں۔ میتھیوز نے کہا کہ چین میں کیش کی گردش کم ہوکر موجودہ کل کرنسی کا 3.7 فیصد رہ گئی ہے اور اس میں مسلسل کمی ہو رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ لوگ 10 یا 20 سال پہلے کے مقابلے میں آج نقدی کا استعمال بہت کم کر رہے ہیں۔ کیش لیس سوسائٹی کی طرف رجحان مسلسل بڑھ رہا ہے۔ آج، برطانیہ میں موجودہ کل کرنسی میں نقدی کی حصے داری تقریباً 2.9 فیصد ہے۔ میتھیوز نے کہا کہ 20 برسوں سے بھی کم عرصے میں، چین نے ایک متاثر کن رفتار سے کیش لیس معاشرے کے معاملے میں برطانیہ کے ساتھ اپنے فرق کو کم کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین میں کیس لیس ٹیکنالوجی نے کتنی تیزی سے ترقی کی ہے اور چینی معاشرے نے اسے کتنی تیزی سے قبول کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر چین میں نقدی کا استعمال اگلے پانچ سالوں میں زیر گردش کل کرنسی کے دو فیصد سے بھی کم ہو جائے تو انہیں حیرانی نہیں ہوگی کیونکہ چین اس ٹیکنالوجی کو بہت تیزی سے اپنا رہا ہے۔
انہوں نے یاد کیا کہ کس طرح اپنے حالیہ دورہ چین کے دوران انہوں نے چند پیسوں میں آم خریدنے کے لیے اپنا فون استعمال کیا۔ میتھیوز نے کہا کہ چین میں ٹیکنالوجی دنیا کے دیگر حصوں کے مقابلے بہت ترقی یافتہ ہے اور اس کا تعلق معیشت کے ڈیجیٹلائزیشن سے ہے۔ میتھیوز کو یہ جان کر حیرت ہوئی کہ چین میں بزرگ، چھوٹے دکاندار اور سڑک پر فروخت کرنے والے بھی نقدی کے مقابلے کیش لیس لین دین کو ترجیح دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ چین باقی دنیا کے لیے ڈیجیٹل ادائیگیوں کی مثال قائم کر رہا ہے۔ تاہم ان کا ماننا ہے کہ کوئی بھی ملک کیش لیس نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے کہا کہ نقد کی ضرورت ہمیشہ رہے گی اور کسی بھی حکومت کے لیے نقد کو گردش سے باہر کرنا ناممکن ہوگا۔