خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے ایک نوٹس جاری کر کے تمام ملکی نیوز چینلز کو گزشتہ ماہ کے واقعات میں ملوث تمام افراد کا بلیک آؤٹ کرنے کاحکم دیا ہے، جس کے بعد سے سابق وزیر اعظم عمران خان کسی بھی اہم نیوز چینل پر نظر نہیں آ رہے ہیں۔۔
روئٹرز کے مطابق اس بارے میں ایک ہدایت نامہ، جو اس نیوز ایجنسی کے نامہ نگاروں نے دیکھا ہے، پیمرا نے گزشتہ ہفتے جاری کیا تھا۔ اس میں گزشتہ ماہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد پیش آنے والے پرتشدد واقعات اور فوجی تنصیبات کو نشانہ بنانے کا ذکر کیا گیا ہے۔
پیمرا نے ٹیلی وژن نشریات کے لیے تمام لائسنس یافتگان سے کہا ہے کہ وہ اس امر کو یقینی بنائیں کہ ”نفرت پھیلانے والوں، فسادیوں، ان کے سہولت کاروں اور مجرموں کو میڈیا سے مکمل طور پر اسکرین آؤٹ کر دیا جائے۔‘‘ اس ہدایت نامے میں عمران خان کا براہ راست کوئی حوالہ نہیں دیا گیا۔ تاہم مشاہدوں کے مطابق پاکستان کے مقبول ترین رہنما اور سابق وزیر اعظم عمران خان کو میڈیا کوریج سے اس حد تک غائب کر دیا گیا ہے کہ ان کا نام اور ان کی کوئی تصویر بھی نشرنہیں کی جا رہی، حتیٰ کہ نیوز ویب سائٹس سے بھی ان کا ذکر تک غائب ہو چکا ہے۔
پیمرا کے حکام نے اس حوالے سے روئٹرز کی جانب سے بھیجے گئے سوالات اور درخواستوں کا کوئی جواب نہ دیا کہ آیا یہ ہدایت عمران خان سے متعلق ہے اور آیا اس ہدایت کا مقصد ان پر ہرطرح کی پابندی عائد کرنا ہے۔ عمران خان طویل عرصے سے پاکستان میں ٹیلی وژن پر نظر آنے والے سب سے مقبول سیاست دان رہے ہیں۔ ان کی تقاریراور اجتماعات کی مکمل کوریج ہوتی رہی ہے اور بڑی تعداد میں ناظرین انہیں دیکھتے بھی رہے ہیں۔
یہ پابندی عمران خان اور ان کی پارٹی کے خلاف بڑے پیمانے پر ہونے والی کارروائیوں کے دوران عائد کی گئی ہے۔ اس کریک ڈاون کے نتیجے میں ان کی پارٹی کے درجنوں رہنماؤں اور ہزاروں حامیوں کوگرفتار کر لیا گیا، جو عمران خان کے بقول ملک کی طاقت ور فوج کر رہی ہے۔ عمران خان کے اس الزام پر فوج نے بھی تبصرہ کرنے کی درخواست کا کوئی جواب نہ دیا۔ اس سے قبل فوج نے گزشتہ سال وزیر اعظم کے عہدے سے عمران خان کی برطرفی کے منصوبے میں شامل ہونے کے الزامات کی بھی تردید کی تھی۔
عمران خان کو خود بھی بدعنوانی کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا لیکن عدالت کی جانب سے ان کی حراست کے طریقہ کار کو غیر قانونی قرار دیے جانے کے دو دن بعد انہیں رہا کر دیا گیا تھا۔ وہ اس وقت ضمانت پر رہا ہیں لیکن انہیں درجنوں مقدمات کا سامنا ہے۔ عمران خان نے ایک انٹرویو میں کہا کہ تشدد کے واقعات کو ان پر اور ان کی پارٹی پر ‘مکمل پابندی‘ لگانے کے لیے ‘بہانے‘ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
عمران خان کا کہنا تھا، ”اب ٹیلی وژن چینلز پر ہمارا کوئی ذکر نہیں ہوتا۔‘‘ وہ اب اپنی پارٹی کے یو ٹیوب چینل کے ذریعے اپنے خیالات کا مستقل اظہار کرتے رہتے ہیں۔ عمران خان کو ٹی وی اسکرین سے بلیک آؤٹ کرنے کے حوالے سے چار بڑے پاکستانی نیوز چینلز کے اعلیٰ نمائندوں نے روئٹرز کی طرف سے سوالات کا جواب نہ دیا۔
یہاں تک کہ اے آر وائی نیوز، جسے سابق وزیر اعظم کے سیاسی مخالفین عمران خان کا حامی چینل سمجھتے ہیں، نے بھی پیر کے روز عمران خان کا کوئی ذکر نہ کیا، حالانکہ فوج کے ساتھ ان کے اختلافات کی خبریں پچھلے کئی ہفتوں سے عالمی میڈیا کی سرخیوں میں ہے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ڈپٹی ڈائریکٹر برائے ساؤتھ ایشیا، دینوشیکا دیسانائیکے کے مطابق، ”عمران خان سے متعلق تمام خبروں کو بلاک کرنے کی اطلاعات پریشان کن اقدامات کی تازہ ترین کڑی ہیں، جو حکام نے اپوزیشن کے خلاف کریک ڈاون کے دوران کیے ہیں۔‘‘