نئی دہلی/جے پور: فیصلے کرتے وقت قاضیوں سے ملکی اور شرعی قانون کا یکساں طور پرلحاظ رکھنے کی اپیل کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر مولانا خا لد سیف اللہ رحمانی نے کہا کہ وہ ایسا کوئی فیصلہ نہ کریں جو ملکی اور شرعی قانون سے متصادم ہو۔ یہ بات انہوں نے جامعتہ الہدایہ جے پور میں منعقدہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے دوروزہ تربیتی و مشارتی اجلاس کی تیسری نشست کی صدارت کرتے ہوئے کہی۔انہوں نے میڈیا میں آنے والی بعض خبر وں کے پس منظر میں کہا کہ جہاں تک قانونی مسائل کی بات ہے کہ کوئی بات خلاف شریعت نہ ہو اور نہ ہی کسی قاضی کو اختیار ہے کہ وہ ملکی قانون کے خلاف کوئی فیصلہ کرے ۔ ساتھ ہی انہوں نے کہاکہ قاضی حضرات حکمت و دانائی سے کام لیں۔انہوں نے تین طلاق کے پس منظر میں دعوی کیا کہ تین طلاق کی آڑ میں مسلم پرسنل لاء کو ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ ہمیں اس کامقابلہ عوامی دباؤ اور ملکی قوانین کی روشنی میں کرنا چاہئے ۔ انہوں نے قانون وراثت کے حوالے کہا کہ یکساں سول کوڈ کا ایک مقصد مسلمانوں کے قانون وراثت میں مداخلت ہے ۔ انہوں نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ وہ وصیت اور ہبہ کے ذریعہ یکساں سول کوڈ کے اس قانون سے بچ سکتے ہیں۔مولانا رحمانی نے مسلم پرسنل لاء بورڈ کے نظام کو شاندار اور مفید قرار دیا اور قاضیوں کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ قاضیو ں کی پہلی کوشش ہونی چاہئے کہ آپسی صلح اور افہام تفہیم کے ذریعہ معاملہ کو فیصلہ تک نہ پہچنے دیں اور پہلے مطمئن کرکے ختم کردیں۔ وہ مشاورت کا سب سے زیادہ توجہ دیں اور افہام و تفہیم کا ماحول پیدا کریں۔ انہوں نے جامعتہ الہدایہ کو ایک تحریک قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس نے مدارس کے نصاب کے سلسلے میں ایک نئی سوچ دی اور کئی اہم مدارس میں اس پر عمل ہورہا ہے ۔آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا فضل الرحیم مجددی نے قضا کے معاملے میں احتیاط کا دامن تھامنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ آپ جس منصب پر بیٹھے ہیں وہ انتہائی ذمہ داری کاکام ہے اس سے نہ صرف اسلام اور مسلمان کا وقار بلند ہوتا ہے بلکہ دوسروں پر انمٹ چھاپ چھوڑتا ہے اگر اس میں کچھ بھی گڑبڑی ہوئی تو اس کاالٹا اثر ہوتا ہے اور مسلمان اور اسلام بدنام ہوتا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ قضا کے اس تربیتی کیمپ سے قاضیوں کو بہت فائد ہ ہوگا اور وہ بہتر طور پر اپنا کام انجام دے سکیں گے ۔سپریم کورٹ کے سینئر وکیل اورمسلم پرسنل لا بورڈ کے لیگل سیل کے کنوینر ایم آر شمشاد نے قاضیوں کے لئے مشاورت پر زور دیتے ہوئے کہاکہ جب مشاورت ناکام ہوجاتی ہے تب معاملہ ہمارے پاس آتا ہے ۔ اس لئے کوشش کریں کہ معاملہ مشاورت میں ہی حل ہوجائے ۔ انہوں نے نکاح، طلاق، خلع کے معاملے میں قانونی پیچیدگیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ اس معاملے میں کئی ہائی کورٹوں کے الگ الگ فیصلے ہیں۔