رواں سال فروری میں منی پور نے جی-20 نمائندوں کی ایک میٹنگ کی میزبانی کی۔ مارچ میں اس نے اپنے پہلے بین الاقوامی فٹ بال ٹورنامنٹ کی میزبانی کی اور اپریل میں مس انڈیا پیجنٹ کا گرینڈ فنالے بھی یہیں ہوا۔ لیکن مئی میں یہاں شورش پسندی شروع ہو گئی۔ سرکاری طور پر تشدد میں 90 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں، 4000 گھروں کو آگ لگا دی گئی، 250 کلیسا جلا دیئے گئے، 35000 لوگ ہجرت کو مجبور ہوئے اور 1200 گاؤں کے لوگ اپنے گھر بار چھوڑ کر مبینہ طور پر بھاگ چکے ہیں۔ منی پور میں سیکورٹی فورسز کی تعیناتی کے باوجود تشدد جاری ہے، منگل کو ریاست کے سیرو علاقے میں ہوئی گولی باری میں بی ایس ایف کا ایک جوان اور آسام رائفلز کے دو جوان شہید ہو گئے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کا یہ اب تک کا سب سے بڑا امتحان ہے۔ منی پور میں تشدد کا جو عالم ہے، اس کی سب سے زیادہ ذمہ داری خود ان کی وزارت اور ریاست کی بی جے پی حکومت کی ہے۔ جب وزیر اعلیٰ بیرین سنگھ خود امت شاہ کے ساتھ پہاڑیوں کے دورے پر نہیں گئے، ککی اراکین اسمبلی نے امپھال آنے یا وزیر اعلیٰ کے ساتھ میٹنگ کرنے کو انکار کر دیا۔
وہاں بڑی علیحدگی دیکھنے کو مل رہی ہے اور بھروسے کی جتنی کمی نظر آ رہی ہے، واقعی میں یہ فکر انگیز ہے۔ چراچندپور میں جب مرکزی وزیر داخلہ نے معمول کے حالات بحال کرنے کے لیے ریاست میں 15 دنوں کے امن کی یقین دہانی مانگی تو انڈیجنس ٹرائبل لیڈرس فورم (آئی ٹی ایل ایف) کے جنرل سکریٹری موان ٹامبنگ نے انھیں دو ٹوک کہا کہ ککی کے پاس لائسنس والے اسلحے ہیں جبکہ میتئی کے پاس نہیں۔
اپریل میں شورش پسند میتئی گروپ کے چیف میتئی لیپون نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ ’’جنگلوں کو کاٹ دو، ندیوں کو خشک کر دو، انھیں ختم کر دو… آؤ ہم پہاڑیوں پر اپنے روایتی مخالف کا صفایہ کریں اور اس کے بعد امن سے رہیں۔‘‘ حالانکہ ان کے یا پھر 4-3 مئی کو شورش پسندوں کو اسلحہ دینے والے پولیس افسران کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔جب امت شاہ 29 مئی کو تشدد متاثرہ منی پور گئے تو امپھال میں ان کا استقبال کرنے والے بینروں سے ان کا سامنا ہوا۔ ان سے نہیں پوچھا گیا کہ ایسے وقت جب ریاست تشدد، آگ زنی کی زد میں ہے اور بڑے پیمانے پر جان و مال کا نقصان ہو رہا ہے، تب وزیر داخلہ ایک ماہ سے کیوں غائب تھے؟ کیا اس لیے کہ نظامِ قانون ریاست کا موضوع ہے؟ لوگ ضرور اس طرح کے سوال کرتے رہے کہ ڈبل انجن کی حکومت کا کیا ہوا؟ لیکن میڈیا نے امت شاہ سے یہ نہیں پوچھا۔ زبردست سیکورٹی اور خفیہ نیٹورک کا کیا ہوا جو امپھال وادی جیسے چھوٹے سے علاقے میں تشدد روکنے میں ناکام رہا؟
جب امت شاہ نے 31 مئی کو کانگ پوکپی اور چراچندپور سمیت دیگر پہاڑیوں کا دورہ کیا، ککی گاؤں میں آگ لگائی جا رہی تھی اور امپھال میں وزیر اعلیٰ میتئی لوگوں سے کرفیو کی خلاف ورزی نہیں کرنے اور سڑکوں کو جام نہیں کرنے کی اپیل کر رہے تھے۔ انٹرنیٹ پر پابندی 5 جون تک بڑھا دی گئی تھی۔ حالات کو قابو کرنے میں سیکورٹی فورسز کی ناکامیوں کے سبب بڑی تعداد میں ککی-چن قبائلیوں کے لوگ میزورم، میگھالیہ کی راجدھانی شیلانگ سمیت مختلف علاقوں پر اپنے رشتہ داروں کے یہاں پناہ لے رہے تھے۔
ان لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ سب وزیر اعلیٰ بیرین سنگھ کی ملی بھگت سے ہوا۔ منی پور کی پہاڑیوں میں افیم کی کھیتی پر پریزنٹیشن دیتے ہوئے انھوں نے ذمہ اٹھایا تھا کہ افیم اگانے والوں کے خلاف ’جنگ چھیڑیں گے‘۔ وزیر اعلیٰ نے اپنے فیس بک پیج پر ککی کو ’جنگلی‘ اور غیر قانونی مہاجر کہا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ انھوں نے میتئی لوگوں کو مشتعل کیا اور قبیلوں کو الگ تھلگ کر دیا۔ سینئر صحافی پردیپ پھنجوبم نے آن ریکارڈ کہا تھا کہ مارچ 2022 میں وزیر اعلیٰ کے طور پر اپنی دوسری مدت کار کے بعد سے بیرین سنگھ نے بغیر مشورہ کے سخت پالیسیوں کو آگے بڑھایا اور وہ ’گھمنڈی‘ ہو گئے ہیں۔
میانمار میں چل رہی خانہ جنگی نے حالات کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ وہاں کے فوجی مجمع کے ذریعہ ستائے گئے لوگ میانمار سے بھاگ کر میزورم اور منی پور آ گئے ہیں جہاں ان کی رشتہ داری ہے، یا پھر ان سے ہمدردی رکھنے والے لوگ ہیں۔ ککی لوگوں کو لگتا ہے کہ وہ پناہ گزیں کو انسانی امداد اور پناہ دینے کے لیے مجبور ہیں۔ لیکن بیرین سنگھ کے سبھی غیر قانونی مہاجروں کو باہر نکالنے کے سخت اعلان نے ناراضگی اور خوف پیدا کر دیا ہے۔
کچھ آبزرورس کا ماننا ہے کہ منی پور میں یہ صرف نظامِ قانون کی چرمراتی حالت نہیں ہے۔ دونوں گروپوں کو جدید اسلحہ اور گولہ بارود کی آسانی دستیابی نے انھیں ایک دوسرے پر حملہ کرنے کے لیے راہ ہموار کیا ہے۔ ان آبزرورس کو لگتا ہے کہ یہ خانہ جنگی ہے۔
ارمبئی ٹینگلو اور میتئی لیپم جیسی میتئی شورش پسند تنظیموں نے مبینہ طور پر امپھال پولیس ٹریننگ سنٹر پر چھاپہ ماری کی اور اسلحے لوٹ لیے۔ اب کہا جاتا ہے کہ اسلحے دراصل انھیں دیئے گئے تھے۔ عام حالات میں مرکزی حکومت منی پور کے وزیر اعلیٰ سے استعفیٰ لے کر وہاں دفعہ 356 (صدر راج) نافذ کر حالات کو اپنے کنٹرول میں لے لیتی، لیکن سیاسی اسباب سے وہ بیرین سنگھ کو عہدہ پر بنائے رکھنا چاہتی ہے۔
منی پور کے حالات سنگین ہیں اور ’معمول والے حالات‘ یا ’امن‘ جیسے لفظ دور کی کوڑی لگتے ہیں۔ اعتماد کا بحران اتنا گہرا ہے کہ مرکزی وزیر داخلہ سے یہ امید کرنا ناسمجھی ہوگی کہ ان کا دورہ جذباتی، نفسیاتی اور جسمانی زخموں کو بھرنے والا مرہم ثابت ہوگا۔ متاثرین کی باز آبادکاری اور انھیں معمول والی زندگی شروع کرنے میں مدد کا چیلنج بہت بڑا ہے۔
پہاڑی لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ اب اپنے میتئی پڑوسیوں پر بھروسہ نہیں کر سکتے کہ وہ مستقبل میں انھیں کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے۔ دوسری طرف پہاڑیوں میں بسے میتئی طبقہ میں بھی یہی جذبہ ہے۔ کیا وہ اب ایک ہی ریاست میں ایک ہی نظام کے تحت پھر سے ایک ساتھ رہ سکتے ہیں؟ کیا امپھال سے بھاگے ہوئے ککی واپس آ سکتے ہیں؟ کیا پہاڑیوں سے بھاگے میتئی کبھی انہی ملے جلے گاؤں میں لوٹ سکتے ہیں۔منی پور چھوٹی ریاست ہے اور اسے سنگین معاشی نتائج کے بغیر تقسیم نہیں کیا جا سکتا ہے۔ جو زیادہ پریکٹیکل اور ممکن معلوم ہوتا ہے، وہ ہے قبائلیوں کو خود حکمرانی کی آزادی فراہم کرنا ہے۔ غیر قبائلی اکثریتی ریاستوں میں رہنے والے اقلیت قبائلیوں نے ہمیشہ آئین کے تحت چھٹے شیڈول والے حالات کا مطالبہ کیا ہے جو انھیں اپنی رفتار سے ترقی کرنے کا حق دیتا ہے، نہ کہ ان کے رسمی حقوق اور رواج کے خلاف میں۔ کئی ریاستوں میں پہلے سے ہی یہ انتظام ہے اور یہ ایک ایسا متبادل ہے جسے منی پور کے پہاڑی قبائل اب پہلے سے کہیں زیادہ چاہتے ہیں۔
میگھالیہ میں آئین کے چھٹے شیڈول کے تحت ضلع کونسل بنے ہوئے ہیں، بھلے ہی ریاست میں قبائلی اکثریت کی حکومت ہو۔ آسام میں دیما ہساؤ، کاربی آنگلونگ، مغربی کاربی اور بوڈو علاقائی خطہ کے پہاڑی ضلع بھی کچھ حد تک خود مختار ہیں اور سب سے بڑی بات، اپنے یہاں کے نظامِ قانون پر کنٹرول رکھتے ہیں۔چھٹے شیڈول کے تحت بوڈو علاقائی خطہ میں بوڈولینڈ یونیورسٹی اور دیگر تکنیکی اداروں سمیت تعلیم کے زیادہ اداروں کے ساتھ بہتر ترقی دیکھی گئی ہے۔ منی پور کی پہاڑیوں، چاہے ناگا آبادی والے علاقوں کی بات ہو یا ککی-چن علاقوں کی، وہاں اعلیٰ تعلیم کے اِکا دُکا ادارے ہیں یا پھر ایک بھی نہیں۔ چراچندپور میں میڈیکل کالج ہے تو وہ مالی اور انسانی وسائل کے رخنات سے متاثر ہیں۔
شق 371 (سی) پہاڑی ایریا کونسل (ایچ اے سی) کی تعمیر کو لازمی کرتا ہے، لیکن اسے حرف بہ حرف نافذ نہیں کیا گیا ہے۔ منی پور میں ریاستی حکومت کبھی بھی ایچ اے سی کے ساتھ اقتدار میں شرکت کرنے کی خواہشمند نہیں رہی ہے، اس لیے کونسلوں کو محدود مالی وسائل یا انتظامی حقوق کے ساتھ کام کرنا پڑتا ہے۔ یہ قبائلیوں کو ریاستی حکومت پر منحصر رکھنے کی ایک سوچی سمجھی چال ہے، بھلے ہی پہاڑیوں کے لیے الاٹ وسائل کم ہی کیوں نہ ہوں۔افیم کی زراعت منی پور میں ایک بڑا خطرہ بن گئی ہے، کیونکہ اس نے دونوں ہی طبقات کی کم از کم دو نسلوں کو برباد کر دیا ہے اور اس مسئلہ سے ایک متبادل معاشی ماڈل کے ذریعہ سے ہی نمٹا جا سکتا ہے۔ افیم پیدا کرنے والوں کو وقت چاہیے تاکہ وہ افیم کی زراعت کو چھوڑ کر کچھ ایسی زراعت کر سکیں جس سے انھیں پیسے بھی ملیں اور نسلیں بھی برباد نہ ہوں۔ یہ کیسے کیا جا سکتا ہے، یہ پہاڑی اراکین اسمبلی کو مختصراً بتانا چاہیے۔