ممبئی: آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ایک وفد نے ملک کے بڑے لیڈر اور شیوسینا کے پرمکھ ادھو ٹھاکرے سے شیوسینا بھون دادر میں ملاقات کی اور ان سے ملی مسائل پر تفصیلی گفتگو کی گئی۔ دراصل گزشتہ 5 فروری کو لکھنو میں بورڈ کی جو عاملہ کی میٹنگ ہوئی تھی اُس میں طے ہوا تھا کہ یہ جو آج کل کچھ پارٹیاں مسلم پرسنل لاء میں مداخلت کی کوششیں مختلف جہات سے کر رہی ہیں، کبھی عدالتوں کا سہارا لیا جارہا ہے اور کبھی مرکزی وریاستی سطح پر قانون سازی کی بات کی جا رہی ہے، یونیفارم سول کوڈ کے لئے تو باقاعدہ الیکشن مینی فیسٹو میں وعدے کئے جا رہے ہیں، گزشتہ دنوں ملک کے لاکمیشن نے بھی 14 جولائی تک کامن سول کوڈ کے لئے عوام سے رائے طلب کرکے اس معاملے کو اور ہوا دے دی ہے، جبکہ ہمارے ملک کا دستور ہر باشندے کو اپنے مذہب اپنی تہذیب اور زبان بولنے، عمل کرنے اور بغیر کسی لالچ یا دباو کے تبلیغ کرنے کا حق دیتا ہے۔ یہی ہمارے ملک کی خصوصیت اور خوبصورتی ہے۔ کچھ لوگ اس ملک کے حُسن کو برباد کرنا چاہتے ہیں۔
اسی طرح کمزور طبقات، اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کی عبادت گاہوں اور مقدس مقامات پر حملوں اور اُن پر ناجائز قبضوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اب تو کوشش یہ بھی کی جا رہی ہے کہ وقف کا قانون ہی ختم کرکے ساری وقف کی زمینیں ہتھیالی جائیں۔ ہندوستانی مسلمان ایسے ظالمانہ اقدامات جن سے اُن کی مذہبی شناخت ختم ہوسکتی ہے کی وجہ سے سخت تشویش میں مبتلاء ہیں، اس لئے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی عاملہ نے طے کیا تھا کہ فی الحال کوئی عوامی تحریک شروع کرنے کے بجائے ملک کے وہ لیڈران اور وہ پارٹیاں جو سیکولر ہونے کی دعویدار ہیں اور مسلمانوں سے ہمدردی رکھنے کا دعویٰ بھی کرتی ہیں نیز وہ مذہبی اقلیتیں جو یونیفارم سول کوڈ کے متفق نہیں ہیں، ساتھ ہی دیگر انصاف پسند شخصیات جو ہندوستان کی کثیر مذہبی، کثیر لسانی وتہذیبی خوصیات کو جمہورہت کے لئے ایک آئیڈیل تصور کرتے ہیں اُن سے ملاقات کرکے اُنھیں مسلمانوں کی تشویش سے آگاہ کیا جائے اور اُنھیں اُن کی ذمہ داری بتائی جائے کہ ملک کی مشترکہ وراثت کی حفاظت کرنا جہاں ہر ہندوستانی باشندے کا فرض ہے وہیں قومی ومذہبی لیڈران کی ذمہ داری سب سے زیادہ ہے۔
چنانچہ اسی سلسلے میں ادھو ٹھاکرے سے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے وفد نے ملاقات کی اور اُنھیں یونیفارم سول کوڈ کی خرابیوں اور اُس کے بعد ہونے والی دشواریوں سے واقف کرایا، اراکین وفد نے ٹھاکرے کو کو یاد دلایا کہ یہ ملک کسی ایک مذہب، کسی ایک تہذیب کے ماننے والوں یا کسی ایک زبان کے بولنے والوں کا نہیں ہے، بلکہ یہاں تو ایک ہی مذہب کے ماننے والوں کے درمیان تہذیب اور آستھا کا فرق پایا جاتا ہے، مسلمانوں کے ساتھ دوسرے مذاہب، قبائل اور آدیواسیوں کے اپنے پرسنل لاء ہیں اگر اِن سب کو ختم کرکے کسی ایک مذہب کا قانون تھوپ دیا جائے گا تو یہ ملک کی یکجہتی کے لئے انتہائی خطرناک بات ہوگی۔
وفد نے یاد دلایا کہ اس سے پہلے 2018 میں سابقہ لاکمیشن نے بھی یونیفارم سول کوڈ کے لئے عوام سے رائے طلب کی تھی اور کچھ سوالات کے جواب مانگے تھے، اس وقت بھی مسلم پرسنل لاء بورڈ نے اُن سوالات کے جواب دیئے تھے اور لاء کمیشن کے چیرمین سے ملاقات کرکے اُن کو یونیفارم سول کوڈ کی خرابیوں اور اس کے نفاذ کے بعد ہونے والی دشواریوں سے آگاہ کیا تھا، اسی کے بعد سابقہ لاکمیشن نے اپنی رپورٹ میں یونیفارم سول کوڈ کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ابھی ملک کے حالات ایسے نہیں ہیں بلکہ آئندہ دس سال تک بھی حکومت کو یونیفارم سول کوڈ کے بارے میں نہیں سوچنا چاہیے۔ سابقہ کمیشن کے اس واضح تبصرے کے بعد بھی پتہ نہیں کیوں موجودہ لاکمیشن نے ایک بار پھر اس گڑے مردے کو اُکھاڑنے کی کوشش کی ہے۔ اسی طرح عبادت گاہوں پر حملے، موب لنچنگ اور اوقاف کی ملکیت میں جو بڑے پیمانے پر خرد برد ہو رہا ہے وقف قانون ختم کرنے کی بات بھی ہو رہی ہے یہ بھی ہمارے لئے سخت تکلیف دہ بلکہ ناقابل برداشت بات ہے۔