عدالت عظمیٰ نے وکیلوں کی ہڑتال سے متعلق ایک معاملے پر 17 جولائی کو سماعت کی۔ اس دوران عدالت نے کہا کہ وکیل کورٹ کا بائیکاٹ نہیں کر سکتے ہیں کیونکہ لوگوں کو ضمانت اور انصاف پانے سے نہیں روکا جا سکتا۔ اس سلسلے میں گائیڈلائن بنائے گئے ہیں لیکن اس کا کوئی اثر نہیں ہوا ہے۔ دراصل ملک کی الگ الگ عدالتوں میں لگاتار وکیلوں کے ذریعہ ہڑتال کیے جانے کا معاملہ سامنے آیا ہے جس پر سپریم کورٹ فکرمند ہے۔
سپریم کورٹ نے اس معاملے میں ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے معاملے سپریم کورٹ میں سامنے کیوں نہیں آتے ہیں، جبکہ یہاں پر بھی نااتفاقی دیکھنے کو ملتی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے کہا کہ عدالتوں میں کام رکنا نہیں چاہیے، وکلا کے ذریعہ بائیکاٹ نہیں کیا جانا چاہیے۔ لوگوں کو ضمانت اور انصاف پانے سے نہیں روکا جا سکتا۔ عدالت نے ہڑتال پر جانے والے وکلا کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
اس سلسلے میں بار کونسل آف انڈیا نے بتایا کہ وکیلوں کی ہڑتال کو لے کر اصول بنائے گئے ہیں۔ سماعت کے دوران ایڈووکیٹ پرشانت بھوشن نے عدالت کو بتایا کہ دہلی ہائی کورٹ میں آج وکلا ہڑتال پر ہیں۔ سپریم کورٹ نے اس سلسلے میں بار کونسل آف انڈیا سے ایک جواب داخل کرنے کو کہا ہے۔ اس میں بار کونسل کو بتانا ہے کہ ملک بھر میں کتنے بار ایسو سی ایشن ہڑتال پر گئے اور ان پر کیا کارروائی کی گئی۔ جسٹس سنجے کشن کول اور جسٹس سدھانشو دھولیا کی بنچ نے بار کونسل آف انڈیا کو سپریم کورٹ میں جواب داخل کرنے کے لیے دو ہفتے کا وقت دیا ہے۔ اس معاملے میں سپریم کورٹ میں اگلی سماعت چار ہفتہ بعد ہوگی۔