غزہ:اسرائیلی حملوں میں غزہ میں شہید فلسطینیوں کی تعداد 9 ہزار 488 ہوگئی ہے۔غزہ وزارتِ صحت کے مطابق اسرائیلی حملوں میں شہید ہونے والوں میں 3 ہزار 900 بچے اور سینکڑوں خواتین شامل ہیں۔فلسطینی میڈیا کے مطابق غزہ میں 7 اکتوبر سے اب تک اسرائیلی حملوں میں شہید صحافیوں کی تعداد 46 ہو گئی ہے۔واضح رہے کہ اسرائیلی فوج 7 اکتوبر سے مسلسل غزہ کو نشانے پر رکھے ہوئے ہے۔اس دوران اسرائیل کی جانب سے ہاسپٹلس، عمارتوں، اسکولوں اور پناہ گزیں کیمپس پر بھی بم باری کی جارہی ہے۔ تقریباًایک ماہ سے جاری بمباری کے نتیجے میں موت اور ملبے کے درمیان معلق زندگی گذارنے والوں میں غزہ کے لاکھوں فلسطینی ہیں۔ لیکن ان میں عنقریب یا اگلے مہینوں میں ماں بننے والی اور ایک نئی زندگی کو جنم دینے والے فلسطینی خواتین کے مسائل سب سے جدا ہیں۔اقوام متحدہ کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق 24 لاکھ کی غزہ کی آبادی میں 50 ہزار خواتین حاملہ ہیں۔ ان میں جو زندہ بچ پائیں یا ان کے بچے پیدائش سے قبل ہی اسرائیلی بمباری یا محاصرے کی وجہ سے موت سے ہم آغوش نہ ہو گئے تو یہ 50 ہزار خواتین اگلے دنوں، ہفتوں یا مہینوں میں ماں بنے والی ہیں۔ ان میں 5500 حاملہ خواتین کے ماں بننے کا وقت مقابلتاً قریب ہے (بشرط زندہ رہیں)، گویا اگلے دو سے تین یا چار ماہ میں یہ 5500 خواتین ماں بننے کے وقت کو پہنچ سکتی ہیں۔ اس طرح پچاس ہزار خواتین اس وقت ایک لاکھ زندگیوں کی نمائندہ ہیں، مگر زندگی کی دوہری گنتی میں شامل ہونے کے باعث عام اہل غزہ سے زیادہ خطرات سے دوچار ہیں۔ ان کی اپنی زندگی کے ساتھ ساتھ ان کے آنے والے ننھے مہمانوں کو خطرات درپیش ہو سکتے تھے۔ اب اسرائیلی بمباری اور زیر محاصرہ غزہ میں انہیں دوسروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ خطرات کا سامنا ہے۔ یہ جنگل نہیں بلکہ جنگل سے زیادہ خوفناکی میں گھرے ہوئے غزہ خواتین ہیں۔ان میں سے بہت سی خواتین اسرائیل کی مسلسل بمباری کی وجہ سے اپنے گھروں کی چھت سے محروم ہو کر بے گھر ہو چکی ہیں۔ ستم کی بات یہ ہے کہ عورتوں کے حقوق کا واویلا کر کے دوسرے ملکوں پر پابندیاں لگانے اور انہیں طعن و تشنیع کا نشانہ بنانے والے سارے ملک اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں۔ کئی ملکوں کے مطابق وہ اسرائیل کے ساتھ جرم میں برابر کے شریک ہیں۔انٹرنیشنل کمیٹی فار ریڈ کریسنٹ کے غزہ کیلئے ترجمان ہاشم مہنا نے غزہ کی حاملہ خواتین کے ان حالات کے باعث کرب کا ذکر کیا تو بتایا کہ ان کی اپنی حاملہ اہلیہ بھی اسی غزہ کی باسی ہونے کے باعث ہزاروں دوسری خواتین کی طرح غیر معمولی خوف کے عالم میں ہیں۔ہاشم مہنا کا یہ کہنا اس لیے ہے کہ غزہ کے آدھے ہاسپٹلس بند ہو چکے ہیں۔ یہی نہیں 72 میں سے 46 پرائمری ہیلتھ کلینک بھی بند ہو چکے ہیں۔باقی بچی ادویات اور دوسرے وسائل سے چلنے والے طبی مراکز نے اپنے ہاں سے زچہ بچہ کے لیے مختص کمروں کو ایمرجنسی اور آپریشنز رومز میں تبدیل کر دیا ہے۔ ہاسپٹلس خود ہمہ وقت اسرائیلی بمباری کے خطرے کی زد میں ہیں۔ادھر امریکہ اور اس کے پکے اتحادی اسرائیل کے ساتھ یک جان اور یک آواز ہیں کہ جنگ بندی نہیں کرنی ہے۔ ایسے میں 50 ہزار فلسطینی خواتین کو نئی زندگیوں کو جنم دینا ہے۔