نئی دہلی: سپریم کورٹ نے شناختی کارڈ دکھائے بغیر 2 ہزار روپے کے نوٹ کی تبدیلی کے خلاف عرضی کی فوری سماعت سے انکار کر دیا۔ عدالت کے تعطیلاتی بنچ نے کہا کہ یہ ایسا معاملہ نہیں ہے جس کی فوری سماعت کرنی پڑے۔ عدالت نے کہا کہ عرضی گزار چیف جسٹس سے گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد سماعت کی استدعا کرے۔ اس سے قبل دہلی ہائی کورٹ نے اس عرضی پر سماعت سے انکار کر دیا تھا۔ عرضی گزار نے اس فیصلے کوک سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔
عرضی گزار وکیل اشونی اپادھیائے کا کہنا ہے کہ بدعنوان اور ملک دشمن عناصر نوٹ تبدیل کرنے والے کی شناخت کی تصدیق کیے بغیر اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ 29 مئی کو دہلی ہائی کورٹ نے عرضی کو پالیسی معاملہ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔ سپریم کورٹ کے جسٹس سدھانشو دھولیا اور کے وی وشواناتھن کی بنچ کے سامنے اپنی عرضی پیش کرتے ہوئے اپادھیائے نے دلیل دی کہ ریزرو بینک کا فیصلہ صوابدیدی ہے۔ ہائی کورٹ نے منظوری دے کر غلط کیا ہے لیکن ججوں نے اپادھیائے کی اپیل کو فوری طور پر سننے سے انکار کر دیا۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ 3 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ مالیت کے 2 ہزار روپے کے نوٹ رکھنے میں بدعنوانی، مافیا یا ملک دشمن طاقتوں کے ہونے کا امکان ہے۔ ایسے میں ایسے عناصر شناختی کارڈ دیکھے بغیر نوٹ بدل کر فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ عرضی گزار نے کہا ہے کہ ہندوستان میں آج کوئی ایسا خاندان نہیں ہے، جس کا بینک اکاؤنٹ نہ ہو۔ اس لیے 2000 روپے کے نوٹ براہ راست بینک کھاتوں میں جمع کرائے جائیں۔ اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ کوئی شخص صرف اپنے اکاؤنٹ میں ہی نوٹ جمع کرا سکے کسی اور کے اکاؤنٹ میں نہیں۔
دہلی ہائی کورٹ میں دلائل کے دوران ریزرو بینک نے عرضی کی مخالفت کی۔ ریزرو بینک کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر وکیل پراگ ترپاٹھی نے 1981 کے ’آر کے گرگ بمقابلہ یونین آف انڈیا’ کیس کے فیصلے کا حوالہ دیا۔ ان کا استدلال تھا کہ عدالت مالیاتی اور مانیٹری پالیسی میں مداخلت نہیں کر سکتی۔ ترپاٹھی نے کہا تھا کہ نوٹ جاری کرنا اور واپس لینا ریزرو بینک کا حق ہے۔ عدالت کو اس میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔