گھڑ سوار انتہائی برق رفتاری سے تقریباً سو میٹر دور سے گھوڑا دوڑاتے ہوئے ایک تنگ سی گلی کے اختتام تک پہنچتا ہے اور وہاں نصب دو میٹر بلند ایک رکاوٹ عبور کرنا اس کا مقصد ہوتا ہے۔ یہ ایک چھوٹے سے پہاڑی ٹیلے کی طرح کی ایک رکاوٹ ہوتی ہے، جسے ہر گھوڑا آسانی سے عبور نہیں کر سکتا۔ اس کوشش میں گھوڑے تو زخمی ہوتے ہی ہیں لیکن ساتھ میں گھڑ سوار اور اس گلی میں جمع بچے بھی زخمی ہو جاتے ہیں۔
یہ درگارہ وسطی جاپان کے شہر کووانہ میں واقع ہے۔ مقامی لوگ گھوڑوں کے لیے اس تکلیف دہ کھیل کو صدیوں پرانی ایک روایت قرار دیتے ہیں جبکہ کچھ لوگوں کے لیے تو یہ اب مقدس بھی بن چکی ہے۔ جانوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم ایک تنظیم کی ایک ٹویٹ میں دیکھا جا سکتا ہے کہ یہ روایت کیا ہے اور کس طرح گھڑ سوار اس رکاوٹ کو عبور کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اس کا نتیجہ کیا نکل سکتا ہے۔اس برس چار اور پانچ مئی کو مے نامی ایک دیہی علاقے میں واقع تادو تائشاہ شینتو درگارہ کے نواح میں منعقد ہونے والے اس میلے میں صرف تین گھوڑے ہی اس رکاوٹ کو عبور کر سکے جبکہ سات ناکام رہے اور زخمی ہوئے جبکہ ایک کی تو ٹانگ ہی ٹوٹ گئی۔جانوروں کے حقوق کے تحفظ کی تنظیم ‘لائف انوسٹی گیشن ایجنسی’ سے وابستہ یوکی آراواکا نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا کہ یہ روایت گھوڑوں کے لیے باعث عذاب اور تکلیف ہے، "یہ روایت ظالمانہ اور غیر ضروری ہے۔ لیکن یہ درگاہ اس کا دفاع کرتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ یہاں کی روایت ہے۔”
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ درگاہ بارہ سو سال پرانی ہے۔ یہاں کے قدیمی لوگوں کے لیے گھوڑے انتہائی اہم تھے اور انسانوں اور خداؤں کے مابین پیغام رسانی کا کام بھی کرتے تھے۔ گھوڑوں کے اس میلے کی تاریخ کم ازکم 680 سال پرانی ہے۔
یوکی آراواکا کا البتہ کہنا ہے کہ یہاں کے مقامی لوگوں نے وقت کے ساتھ ساتھ گھوڑے کے لیے بنائی گئی اس رکاوٹ کو مزید بڑا ہی کیا ہے تاکہ لوگ اس مقابلے کو مشکل بنا کر زیادہ انجوائے کر سکیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو مزید بتایا کہ مقامی انتظامیہ اسے ایک تاریخی و روایتی کھیل قرار دے کر سیاحوں کو اس کی طرف متوجہ کرنا چاہتی ہے تاکہ اس علاقے کو اقتصادی فائدہ ہو سکے۔
گزشتہ ایک دہائی کے دوران جانوروں کی حقوق کی تنظیموں نے گھوڑوں کے ساتھ برتے جانے والے اس بہیمانہ سلوک کو روکنے کی خاطر کئی مہمات چلائی ہیں۔ جس کی وجہ سے اس معاملے کو بین الاقوامی توجہ ملی ہے جبکہ ٹوکیو حکومت بھی اس حوالے سے تحفظات کا اظہار کر رہی ہے۔ یوکی آراواکا پرعزم ہیں کہ وہ اس میلے میں گھوڑوں کو زخمی کرنے والی اس روایت کو ممنوعہ قرار دلوانے کے لیے اپنی کوششوں کا سلسلہ جاری رکھیں گی۔
انہوں نے کہا کہ اس کی خاطر وہ اور ان کی تنظیم کے دیگر اراکین مقامی، قومی اور بین الاقوامی سطح پر آگاہی کی مہمات چلاتے رہیں گے۔ یوکی آراواکا کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا کی بدولت بھی ان کی مہمات عالمی سطح پر پہنچنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔