کولکاتا: وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے ایک بار پھر شہریت ترمیمی ایکٹ کے نفاذ پر مرکزی حکومت پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ سی اے اے اوراین آر سی ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور یہ شہریت دینے والا ایکٹ نہیں ہے بلکہ شہریت چھیننے والا ایکٹ ہے ۔ انہوں نے ایک بار پھر یہ بھی واضح کیاکہ میں نسل پرستانہ سی اے اے کو قبول نہیں کرتی۔ مرکزی حکومت کا دعویٰ ہے کہ سی اے اے اور این آر سی بالکل مختلف ہیں۔ان کا ایک دوسرے سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ اپوزیشن نے سوال کیا ہے کہ 2019 کا یہ شہریت ایکٹ منظوری کے چار سال بعد کیوں نافذ کیا گیا ہے ؟ وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے ایک بار پھر پوچھاکہ مسلم کمیونٹی کو سی اے اے سے کیوں باہر رکھا گیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ میں کیا قوانین ہیں؟ اگر کوئی وہاں پڑھتا ہے یا پانچ سال تک رہتا ہے تو اسے گرین کارڈ ملتا ہے ، شہریت مل جاتی ہے ۔ ساری دنیا میں قوانین ایک جیسے ہیں لیکن ہندوستان میں کیا کیا جارہا ہے؟ مسلم کمیونٹی کو مکمل طور پر خارج کردیا گیا ہے جو قواعد وضع کیے گئے ہیں ان میں کوئی وضاحت نہیں ہے۔
ترمیم شدہ شہریت قانون 31 دسمبر 2014 تک پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے مذہبی ظلم و ستم کی وجہ سے اس ملک میں آنے والے پناہ گزینوں کو ہندوستانی شہریت فراہم کرتا ہے ۔ ان ممالک سے ہندو، سکھ، جین، بودھ، پارسی اور عیسائی پناہ گزینوں کو شہریت دینے کا ذکر کرتے ہوئے ، ممتابنرجی نے کہاکہ ہم کسی کو بھی حقوق دینے میں خوش ہیں۔ لیکن ہمیں اسے باقی دنیا کی طرح کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ممتا نے ایک بار پھر واضح کیا کہ وہ بنگال میں شہریت ترمیمی ایکٹ کے نفاذ کی اجازت نہیں دیں گی۔ تاہم، یہ سوال ہے کہ کیا کوئی ریاستی حکومت مرکزی قانون کے نفاذ کو روک سکتی ہے ۔ بہت سے قانونی ماہرین کے مطابق، کوئی بھی وزیر اعلیٰ یہ اعلان نہیں کر سکتا کہ کسی مرکزی قانون کو نافذ نہیں کیا جائے گا، چاہے اس کی سیاسی طریقے سے مخالفت کی جائے ! ان کے مطابق ایسا اعلان آئین کے خلاف ہے ۔